ایران کی وزارت خارجہ نے مملکت میں حالیہ مظاہروں کے تناظر میں مخالفانہ رپورٹنگ پر برطانیہ اور ناروے کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حال ہی میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد ایران کے دارالحکومت تہران سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جب کہ اس دوران مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی رپورٹ ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ اور ناروے کے سفیروں کو مظاہروں کی کوریج اور اس پر تبصروں کے الزام میں طلب کیا ہے جب کہ ان سفیروں سے وضاحت بھی مانگی گئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ برطانوی سفیر کو واقعے کی کوریج پر ’مخالفانہ‘ رپورٹنگ پر طلب کیا گیا ہے جب کہ ناروے کے سفیر سے ناروے کی پارلیمان کے اسپیکر کے ایران کے اندرونی معاملے میں ’مداخلت پسندانہ موقف‘ رکھنے پر وضاحت طلب کی گئی ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اب تک ایران میں مظاہروں کے دوران کم از کم 41 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جس میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق مظاہرین سے ہے جب کہ ہلاک ہونے والوں میں اسلامی جمہوریہ سیکیورٹی فوسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔
اس کے برعکس انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی ہے۔
Advertisement
انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا، پولیس کی گاڑیوں اور ریاستی عمارتوں کو نذر آتش بھی کیا ہے جب کہ مظاہرین اس دوران ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے بھی لگاتے رہے۔
Advertisement
دوسری جانب ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا ملک میں جاری مظاہروں پر کہنا ہے کہ ملک کی سلامتی اور امن کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی پولیس نے مہسا امینی کو کچھ دن قبل حجاب نہ کرنے پر حراست میں لیا تھا اور تین دن بعد طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کیا جہاں وہ 16 ستمبر کو انتقال کر گئیں تھیں۔
Advertisement