يوکرين اور مالدووا کو يورپی يونين کی رکنیت کے اميدوار ممالک تسلیم کر لیا گیا ہے۔ يہ کسی ملک کی باقاعدہ رکنيت کے سفر ميں محض پہلا قدم ہے۔
يورپی بلاک کا رکن بننے کے خواہش مند ممالک
سنہ 1958 ميں نیدرلینڈز، بيلجيم، لکسمبرگ، فرانس، اٹلی اور جرمنی نے يورپی بلاک کی بنياد رکھی۔
بعد ازاں، مختلف اوقات پر مزید اکیس ممالک اس اتحاد کا حصہ بن گئے۔ اس وقت يورپی يونين کی رکن رياستوں کی تعداد ستائيس ہے۔ يورپی يونين کی رکنيت کے مراحل اور طريقہ کار واضح طور پر لزبن معاہدے کہ شق نمبر 49 ميں طے کیے گئے ہیں۔
رکن بننے کا سفر
Advertisement
کوئی بھی یورپی ریاست رکنیت کے لیے درخواست دے سکتی ہے، بشرطیکہ وہ يونين کی اقتدار کے مطابق جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔ یورپی یونین کی کونسل متفقہ طور پر درخواست منظور کر کے مذاکرات شروع کرتی ہے۔ یورپی یونین کا کمیشن متعلقہ ملک کی اس بلاک میں شموليت کی سفارش کرتا ہے جس کی یورپی پارلیمان سے منظوری لازمی ہوتی ہے۔
درخواست دہندہ ملک اور یورپی کونسل بین الاقوامی قوانين کے مطابق باہمی الحاق کے ايک معاہدے پر دستخط کرتے ہیں جس کی تمام رکن ممالک کی طرف سے توثیق لازمی ہوتی ہے۔ يہ مرحلہ مکمل ہوتے ہی اس بلاک کی رکنيت کا عمل پورا ہو جاتا ہے۔ رکنيت کے ليے مذاکرات کا سلسلہ چند برسوں سے لے کر کئی دہائيوں تک چل سکتا ہے۔ اس کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ درخواست دہندہ ملک کتنا بڑا ہے اور وہاں کے حالات کيسے ہيں۔ علاوہ ازيں، پبلک ايڈمنسٹريشن، عدلیہ اور معیشت کو یورپی یونین کے معیارات کے مطابق بنايا جاتا ہے۔ مذاکراتی عمل پينتيس ادوار يا حصوں پر مبنی ہوتا ہے۔
درخواست دہندگان ممالک کی تقسیم
بوسنیا اور ہرزے گووینا، جارجیا کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے درخواستیں دی ہوئی ہیں ۔ البانیہ، شمالی مقدونیہ اور اب یوکرین اور مالدووا کا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جو اپنی درخواستوں کی مثبت جانچ پڑتال کے بعد باقاعدہ طور پر امیدوار بن چکی ہیں۔ اسی طرح سربیا، مونٹی نیگرو اور ترکی وہ ریاستیں ہیں جن کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔
سنہ 1990ء کی دہائی ميں فن لینڈ کو اس پورے مرحلے سے گزرنے اور رکن بننے ميں صرف تین سال لگے۔ تاہم، ترکی کے ساتھ سنہ 2005 سے مذاکرات جاری ہيں۔
یورپی یونین اس بات پر زور دیتی ہے کہ جس رفتار سے درخواست دينے والے ملک ميں اصلاحات اور تراميم ہوتی ہیں، اسی رفتار سے رکنيت کا معاملہ بھی آگے بڑھتا ہے۔البتہ مذاکراتی عمل کے دوران تعاون کے کئی معاہدوں کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔ يوں اصلاحات کے عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور رسمی اقدامات کے علاوہ معاشی مدد بھی ممکن بنائی جاتی ہے۔
یورپی یونین میں شامل ہونے سے قبل امیدوار ممالک کو اپنے تنازعات اور پڑوسی ریاستوں کے ساتھ علاقائی اختلافات دونوں حل کرنا ہوتے ہیں۔ یہ یوکرین کے لیے انتہائی مشکل ہو گا۔ واضح رہے، سربیا اور کوسوو کے لیے بھی يہی بات مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں، حالیہ برسوں میں اپنی درخواست واپس لے لینے والا واحد ملک آئس لینڈ ہے، جس نے سن 2015ء میں ایسا کيا۔
برطانیہ وہ واحد ملک جس نے اپنی رکنیت ترک کر کے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کی۔ برطانیہ سنہ 2020ء میں اس سے چند برس قبل کرائے گئے ایک عوامی ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں یورپی یونین سے عملاﹰ نکل گیا تھا اور یہ اخراج عرف عام میں بریگزٹ کہلاتا ہے۔