گزشتہ دنوں امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ افغان دارالحکومت کابل کے ایک محفوظ علاقے میں مقیم تھے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں یہ علاقہ غیرملکی سفارتخانوں اور سفارتکاروں کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا جہاں اب زیادہ تر اعلیٰ طالبان عہدیدار رہتے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق امریکی سی آئی اے کے افسران نے صدر جو بائیڈن اور ان کے مشیروں کو پہلی بار اپریل میں الظواہری اور ان کے خاندان کی کابل میں موجودگی کی اطلاع دی تھی۔ صدر بائیڈن کے لیے امریکا کو انتہائی مطلوب ہدف کو نشانہ بنانے کا موقع خطرے سے بھرپور تھا کیونکہ الظواہری ایک گنجان آبادی میں رہائش پذیر تھے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کے آخری دنوں میں کابل میں ایک ڈرون حملے کے دوران غلطی سے 7 بچوں سمیت 10 بے گناہ افراد لقمہء اجل بن گئے تھے۔
یکم جولائی کو صدر بائیڈن نے کئی اعلیٰ حکام جن میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اور نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ایورل ہینس شامل تھے، سے حملے کے بارے میں بریفنگ لی۔ اس کے بعد انتہائی محتاط انداز میں اس آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی۔ 25 جولائی کو صدر بائیڈن نے سی آئی اے افسران اور اعلیٰ مشیروں سے رائے لینے کے بعد اس حملے کی اجازت دی۔
Advertisement
انٹیلیجنس حکام کے مطابق مقامی وقت صبح 6 بج کر 18 منٹ پر ایک ڈرون سے داغے گئے دو ہیل فائر میزائل الظواہری کے مکان کی بالکنی سے ٹکرائے جس کے نتیجے وہ جاں بحق ہو گئے تاہم امریکی دعوے کے مطابق حملے میں خاندان کے افراد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ حملے میں ہیل فائر میزائل استعمال کیا گیا جس میں دھماکا خیز مواد نہیں ہوتا۔ اس میزائل میں چھ بلیڈ نصب ہوتے ہیں جو نشانے پر پہنچتے ہی میزائل سے باہر نکل کر صرف ہدف کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔
اتوار کو طالبان وزارت داخلہ نے مقامی چینل طلوع نیوز کو بتایا کہ ایک مکان پر راکٹ حملے کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا ہے تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔ امریکی حکام نے الظواہری کی ہلاکت کی تصدیق کی مگر حملے کے بارے میں تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
Advertisement