(میڈیا کے روایتی تصورات اب غیر متعلق ہوگئے ہیں(ڈائریکٹر جنرل وام

52
عالمی میڈیاکانگریس 2022کے انعقاد سے قبل ڈائریکٹرجنرل امارات نیوزایجنسی محمدجلال الریسی کاانٹرنیشنل براڈکاسٹنگ کنونشن کوانٹرویو
میڈیا کے روایتی تصورات اب غیر متعلق ہوگئے ہیں
 مستقبل میں مصنوعی ذہانت کا کردار اہم ہوگا
میڈیا انڈسٹری کے اعلیٰ عہدوں پر ایک خاص آبادی کے لوگ قابض ہیں
ابوظہبی(نیوزڈیسک)::ڈائریکٹرجنرل امارات نیوز ایجنسی (وام) محمد جلال الریسی نے کہا ہے کہ میڈیا کے منظر نامے میں تبدیلی کی رفتار اور اس کی شکل وصورت ناقابل یقین رہی ہے، اور میڈیا کے روایتی تصورات اب غیر متعلق ہوگئے ہیں۔
الریسی نے ان خیالات کااظہار ابوظہبی میں گلوبل میڈیا کانگریس کے انعقاد سے پہلے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ کنونشن (آئی بی سی) کے کمیونٹی پلیٹ فارم آئی بی سی365 کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔
انٹرویو میں وام کے ڈائریکٹر جنرل نے میڈیا انڈسٹری کو درپیش چیلنجز اور مستقبل کی وضع قطع پر ایسے چھ بڑے عوامل کے حوالے سے روشنی ڈالی، جنہوں نے اس شعبے کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مکمل انٹرویو درج ذیل ہے
آئی بی سی365: گزشتہ کچھ سالوں میں آپ نے میڈیا کے منظر نامے میں کیا تبدیلیاں دیکھی ہیں؟
الریسی: ماضی قریب میں ہونے والی تبدیلیاں، خاص طور پر گزشتہ دو دہائیوں میں، حیران کن رہی ہیں۔ رواں صدی کے ابتدائی سالوں میں جب میں امریکہ میں میڈیا کی تعلیم حاصل کررہا تھا اس وقت سے لے کر موجودہ وقت تک تبدیلی کی رفتار اور بناوٹ ناقابل یقین رہی ہے۔ میڈیا کے روایتی تصورات اس وقت غیرمتعلقہ ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی نقطہ نظر سے، میرے خیال میں میڈیا کے شعبے میں چھ بڑی تبدیلیاں آئی ہیں
جن میں میڈیا کے تمام شعبوں میں تکنیکی ترقی ، سوشل میڈیا کی آمد اور تنوع اور اطلاعات کی ترسیل میں اس کا کردار، میڈیا ملکیت کے نئے ماڈلز اور میڈیا کے بڑے گروہوں کا سامنے آنا، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی بدولت ایک ہی وقت میں دنیا میں کہیں بھی خبروں کا حصول اور خبردینے والوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت،میڈیا کنزمپشن سے سوسائٹی کے ٹیکنالوجی سے نابلد طبقات کا تقریباًاخراج اور ایک طرف میڈیا کی بے مثال توسیع کے ساتھ دوسری طرف صحافت کا سکڑناشامل ہے۔
آئی بی سی365: اس سال گلوبل میڈیا کانگریس میں تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجی پر توجہ دی گئی ہے۔ آپ کے خیال میں کون سی ٹیکنالوجیز اہم تبدیلی لا رہی ہیں؟
الریسی: گلوبل میڈیا کانگریس کا مقصد دنیا کے کونے کونے سے میڈیا اداروں کو ایک جگہ اکٹھا کرنا اور میڈیا انڈسٹری میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اور اس بات پر کہ مستقبل میں بناوٹ اور خبر کے مواد کے حوالے سے یہ انڈسٹری کس طرح تبدیل ہوگی، اس پر کھلی اور سنجیدہ بحث کا موقع فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی قدرتی طور پر اس طرح کے مباحثوں میں بنیادی اہمیت اختیارکرجاتی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی صنعت میں تبدیلی کا بنیادی محرک ہے۔ تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجی کا لفظ ضروری نہیں کہ کوئی منفی ہو۔ اس سے مراد وہ تبدیلی ہے جو جمود کو بنیادوں تک ہلا دیتی ہے۔
میرے خیال میں مصنوعی ذہانت،خبروں کی ترویج کے ملٹی پلیٹ فارم کی نئی تکنیک اور میٹاورس کی بے پناہ استعداد اور اس سے ہونے والی تبدیلی یہ سب صنعت میں اہم تبدیلی کے محرکات میں سے ہیں۔ امید ہے کہ کانگریس نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ عالمی امور کے اس اہم شعبے کے دیگر اہم پہلوؤں کے حوالے سے میڈیا انڈسٹری کی مستقبل کی سمت کو واضح کرنے میں مدد کرے گی۔
آئی بی سی365: آپ کون سے دیگر رجحانات دیکھ رہے ہیں جو اگلے چند سالوں میں میڈیا انڈسٹری پر حاوی ہو سکتے ہیں؟
جلال الریسی: اس سوال کا مختصر جواب دینا بہت مشکل ہے۔ جیسا کہ مصنوعی ذہانت کا کردار اہم ہوگا۔ ایک اور اہم پہلو ایسے انسانی وسائل کی تیاری کی ضرورت کا ہے جو ٹیکنالوجی کے چیلنجز پر پورا اترنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ میرے خیال میں یہ آسان نہیں لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر تمام میڈیا اداروں کو پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہاں سب سے اہم نکتہ نوجوانوں کی صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان دنیاوی لحاظ سے عقلمند اور تکنیکی ترقی سے بھرپور مستفید ہورہے ۔ پچھلی نسلوں کے برعکس ٹیکنالوجی ان کے لیے دوسری فطرت ہے۔ دوسرا یہ کہ زیادہ تر ممالک میں نوجوانوں کی غالب آبادی کو دیکھتے ہوئے، ایسا میڈیا جو نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے یا ان کے لیے پرکشش نہیں ،اور اس نے خود کو غیر متعلقہ یا بے کار ثابت کیا ہے اس رجحان کا بھی ہمیں اندازہ لگانے کی ضرورت ہے۔
آئی بی سی365: آپ کس مستقبل کے رجحان کے بارے میں سب سے زیادہ پرجوش ہیں؟
الریسی: میں میٹاورس کے پیش کردہ امکانات کے بارے میں پرجوش ہوں، جہاں ٹیکنالوجی براہ راست عملی موجودگی کے ساتھ تجربے اور ورچوئل تجربے کے درمیان فرق کو تقریباً مٹا دے گی۔ ہوسکتا ہے کہ میں حد سے زیادہ پر امید ہوں، لیکن یہ یقینی طور پر پرجوش چیز ہے۔ متحدہ عرب امارات کی سرکاری خبر ایجنسی کے سربراہ کی حیثیت سے، میرا بنیادی مقصد یہ بتانا ہے کہ اس کا ہمارے ملک کے حوالے سے کیا مطلب ہے۔ ٹکنالوجی میں ترقی ہمیں اپنے ملک میں بہت زیادہ متن کے بغیر ویژوئل کے ذریعےکام کرنے کا موقع دیتی ہے جس سے کام آسان ہو جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے حوالے سے یہ ہے کہ ہم اپنے بارے میں جو بات بھی باقی دنیا تک پہنچانا چاہتے ہیں، وہ متن کی بجائے ویژوئلی ہمارے لیے آسان ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات دنیا کا سب سے منفرد ملک ہے جہاں 00 قومیتوں کے لوگ ہم آہنگی اور امن کے ساتھ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔ ہمارے پاس ویژوئلی طور پر اس تنوع دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے ، لیکن تقسیم اور اختلافات سے بھری دنیا میں، ایک ہی حقیقت کو متن کے ذریعے باور کرانا مشکل ہے۔مختصراً، ہم میڈیا انڈسٹری میں ہونے والی تبدیلیوں خاص طور پر حقائق کو پیش کرنے کے طریقوں کے حوالے سے خوش ہیں!
آئی بی سی365: آپ کے خیال میں صارفین کا رویہ کیسے تبدیل ہو رہا ہے؟
الریسی: میرے خیال میں صارفین کا رویہ کئی طریقوں سے بدل رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میڈیاصارفین اب میڈیا کے استعمال کے وقت اور جگہ کا تعین کر سکتے ہیں۔ کچھ دہائیاں پہلے، آپ کو اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے کے لیے ایک خاص وقت پر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھنا پڑتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب آپ اپنی پسند کے وقت اور اپنی پسند کے آلے پر اور اپنی پسند کی جگہ پر ایسا کر سکتے ہیں۔
یہ میڈیا اور اس کے صارفین دونوں کے لیے اچھا ہے۔ میڈیا کے حوالے سے یہ اسے لوگوں کے وسیع تر طبقات تک پہنچنے کا بہتر موقع فراہم کرتا ہے۔ صارفین کے لیے، یہ انہیں سہولت فراہم کرتا ہے۔ ایک اور اہم تبدیلی وہ ہے کہ صارفین آسانی سے نئی ٹیکنالوجیز کو اپناتے ہیں۔ دوسری نسل میں، اس عمل میں دہائیاں نہیں تو برسوں لگتے تھے۔
آئی بی سی365: کیا میڈیا مہارت کی کمی ہے؟ اور میڈیا انڈسٹری اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟
الریسی: میں نہیں سمجھتا کہ ہنر کی کوئی کمی ہے۔ ماضی کے برعکس، ہمارے پاس میڈیا کے بہت سے تعلیمی ادارے ہیں، جو میڈیا کے تمام شعبوں میں نوجوانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ آج کل ان اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد ماضی کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ جس چیز کی کمی ہے وہ مہارت کی کمی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ تربیت کے ناکافی مواقع ہیں۔ ایک بار جب آپ فارغ التحصیل ہو جاتے ہیں،تو آپ مناسب تربیت کے بغیراپنے کام میں آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں یہ ایک بڑی خرابی ہے۔
آئی بی سی365: متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی میڈیا انڈسٹری میں شمولیت اورانکی شراکت کوکیسے یقینی بنایاجاسکتا ہے؟
الریسی: اگرچہ سوال بہت آسان ہے لیکن اس کا جواب ہرگز آسان نہیں ۔ چند ہفتے پہلے ایک تحقیق میری نظروں سے گزری جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ میڈیا انڈسٹری کے اعلیٰ عہدوں پر ایک خاص آبادی کے لوگ قابض ہیں۔ یہ واقعی سنگین مسئلہ ہے۔ جب تک آپ کے پاس نیوز رومز میں متنوع پس منظر اور سماجی طبقات کے لوگ نہیں ہوں گے، آپ کی کہانیاں معاشرے کے ایک طبقے کے حق میں اور دوسرے کے خلاف متعصب ہو سکتی ہیں۔
تاہم، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہے کہ متحدہ عرب امارات میں میڈیا انڈسٹری اس قسم کی صورتحال نہیںٰ ہے۔ ہمارے میڈیا اداروں میں قومیتوں، مذاہب، سماجی پس منظر وغیرہ کے لحاظ سے بہت سے لوگ موجود ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے ادارے امارات نیوز ایجنسی (وام) کے عملے میں بھی درجنوں قومیتوں کے افراد ہیں۔ وہ اپنے اماراتی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ میڈیا انڈسٹری کو مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو اس میں شامل اور شراکت کرنے کی ترغیب دینی چاہیے۔
آئی بی سی365: کیا فاصلاتی کے مقابلے میں عملی موجودگی کے کچھ خاص فوائد ہیں؟
جلال الریسی: اس سوال کا جواب موضوع کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ کسی ایسے شخص کے طور پر جس کی ایک انتہائی متحرک سماجی ماحول میں پرورش ہوئی اور اسی میں وہ جوان ہوا، میں ورچوئل یا ایک فاصلے سے بات چیت کے مقابلے میں ذاتی طور پر بات چیت اور شرکت کو ترجیح دیتا ہوں۔ میرے خیال میں ورچوئل ملاقاتوں میں جذبات کا اظہار تقریباً صفر ہوتا ہے، جب کہ جب آپ کسی سے ذاتی طور پر مل رہے ہوتے ہیں تو زیادہ گرم جوشی اور زیادہ شخصیت سازی ہوتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ میں پرانے زمانے کاآدمی ہوں، لیکن میں کبھی بھی ورچوئل کی بجائے ذاتی ملاقات میں بات چیت کا انتخاب کروں گا۔تاہم وبا جیسے حالات میں یہ مختلف ہے۔ ہمیں اس میں شامل ہر فرد کی حفاظت کے لیے ورچوئل موڈ پر انحصار کرنا ہوگا۔
آئی بی سی365: آئندہ ہونے والی گلوبل میڈیا کانگریس کے بارے میں مزید کیا بتایا جاسکتا ہے؟
الریسی: متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر اعظم اور وزیربرائے صدارتی عدالت عزت مآب شیخ منصور بن زاید آل نھیان کی زیر سرپرستی اورامارات نیوز ایجنسی (وام) کے تعاون اور ایدنیک گروپ کے زیر اہتمام ہونے والی گلوبل میڈیا کانگریس، ایک کثیر جہتی تقریب ہے جو 15 سے 17 نومبر تک ابوظہبی نیشنل ایگزیبیشن سنٹر میں منعقد ہوگی۔
اس میں میڈیا کے مستقبل کے حوالے سے تین روزہ کانفرنس، دنیا بھر کے نوجوان صحافیوں کے لیے تقریباً 30 تربیتی ورکشاپس، میڈیا انڈسٹری میں جدید ترین ٹیکنالوجیز کو پیش کرنے کے لیے ایک نمائش اور دیگر ایونٹس کا انعقاد کیا جائےگا ۔ ہم نے تمام براعظموں اور ممالک سے میڈیا سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ شخصیات کی ایک بڑی تعداد کو مدعو کیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ کانگریس میں میڈیا کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں اس کے تمام جہتوں کو اجاگر کیا جائے گا۔(بشکریہ وام)
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }