ممکن ہے ایک دن 22عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلیں:جیرڈکشنر
ہم مذاکرات سے انکار کرکے مسائل حل نہیں کررہے
ابوظہبی:(اردوویکلی):: ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینئر مشیر جیرڈ کشنر نے کہا ہے کہ یہ بات ممکن اور قابل فہم ہے کہ تمام 22 عرب ریاستیں ایک دن اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرلیں۔ چند مہینوں میں دنیا چوتھی عرب ریاست کے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات کو قائم ہوتا دیکھے گی۔ 1978 میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کئے 1994 میں اردن اور 2020 میں متحدہ عرب امارات واحد عرب ممالک ہیں جنھوں نے اس اقدام کا اعلان کیا ہے۔ امارات نیوز ایجنسی وام کو ایک خصوصی انٹرویو میں ٹرمپ کے مشرق وسطی کے لئے چیف مشیرجیرڈ کشنر نے انکشاف کیا
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چوتھی عرب ریاست کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے میں سالوں یا مہینوں لگ سکتے ہیں تو انہوں نے مذکورہ عرب ملک کا نام بتائے بغیر کہاکہ امید ہے کہ یہ مہینوں میں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ظاہر ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اس اقدام سے بہت سارے لوگ حسد کرتے ہیں۔بہت سارے لوگ ٹیکنالوجی ، معیشت اور اسرائیل کی ترقی تک رسائی چاہتے ہیں۔ اسرائیل مشرق وسطی کے لئے ایک اور سلیکن ویلی کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا کہ عقیدہ کے نقطہ نظر سے بہت سارے مسلمان متحدہ عرب امارات کے راستے مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لئے پرجوش ہیں مجھے لگتا ہے کہ یہ واقعی ایک دلچسپ آغاز ہو گا اور مجھے امید ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک ایسا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مذاکرات سے انکار کرکے مسائل حل نہیں کررہے ۔لہذا تعلقات معمول پر لانے اور عوامی تعلقات اور کاروباری تبادلوں کی اجازت سے ہی مشرق وسطی کو مزید مستحکم کیا جاسکتا ہے۔جیرڈ کشنر متحدہ عرب امارات کے تاریخی دورے پرآنے والے امریکی اسرائیلی اعلی سطحی وفد کے سربراہ ہیں جو گزشتہ روز تل ابیب سے ابوظہبی آنے والی پہلی کمرشل پرواز سے پہنچا تھا انہوں نے گذشتہ روز متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زاید آل نھیان اور متحدہ عرب امارات کے وزیر برائے امور خارجہ و بین الاقوامی تعاون شیخ عبداللہ بن زاید آل نھیان سے اسرائیل کے قومی سلامتی کونسل کے سربراہ ، میر بین۔ شبات اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن کی موجودگی میں ملاقات کی تھی۔ اس سوال پر کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ایک دن تمام 22 عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لاسکتے ہیں کشنر نے جلدی سے جواب دیا کہ سو فیصد۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ کام کرنا ان کے لئے منطقی ہے اور مجھے یقین ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کرنا صحیح کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری امید اور دعائیں ہیں کہ رہنماوں میں طاقت اور ہمت ہو کہ وہ صحیح فیصلے کریں اور مخاصبانہ اقلیتوں کی جانب سے حوصلہ شکنی کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ٹویٹر کوئی حقیقی جگہ نہیں ہے۔ لوگ ٹویٹر پر ناراض ہیں اور آپ کے ملک میں بھی کچھ بنیاد پرست ہیں۔ جو لوگ معمول کے تعلقات کے خلاف ہیں وہ ترقی کے مخالف ہیں۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات کی قیادت کی بدولت ایک بہت بڑا اتحاد ہوگا۔ اور اسکی مخالف قوتیں خطے میں مزید الگ تھلگ ہوجائیں گی۔ کشنر نے وضاحت کی کہ مغربی کنارے کے الحاق کے اسرائیلی منصوبے کی معطلی کے بارے میں مذاکرات مستقبل قریب کی بجائے مستقبل میں ہوں گے۔ انہوں نے کہا فی الحال توجہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات اور ممکنہ طور پر دوسرے ممالک کے ساتھ [اسرائیلی] تعلقات پر ہے۔ متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، بحرین اور مصر کی جانب سے 2017 کے بعد سے قطر کے بائیکاٹ کے بارے ایک سوال پر کشنر نے کہا کہ متعلقہ ممالک کے رہنماؤں سے بات چیت ایجنڈے پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دورہ میں انہیں متحدہ عرب امارات کی قیادت سے اس حوالے سے بات کرنے کا موقع ملا۔ بحرین ، سعودی عرب اور قطر کے دورہ میں ان کے ساتھ بھی اس پر تبادلہ خیال کروں گا۔۔