معروف مصنف اسامہ صدیق کے اعزاز میں سفارت خانہ پاکستانابوظہبی کی جانب سے ایک ادبی نشست کا انعقاد۔
مصنف کی ذمہ داری ہے کسی ایجنڈے پرنہ چلے۔
چھوٹے شہروں میں زیادہ پڑھنے والے موجودہیں۔
مہنگی کتابیں اور بہترمارکیٹنگ نہ ہوناکتب بینی میں کمی کی بنیادی وجہ ہے۔
اپنے لوگوں کے لیئے لکھناچاہتاہوں(اسامہ صدیق)
ابوظہبی(اردوویکلی)::سفیرپاکستان کی سرپرستی میں گزشتہ روزسفارت خانہ پاکستان ابوظہبی نے شعبہ ادب کی ممتازادبی شخصیت معروف وکیل، ناول نگاراورماہرتعلیم ڈاکٹر اسامہ صدیق کے ساتھ ایک انٹرایکٹو سیشن کی میزبانی کی،۔
ڈاکٹراسامہ صدیق، اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں اور بہت اچھے لکھاری کے طور پرجانے جاتے ہیں ڈاکٹراسامہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) میں قانون کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔سیشن کی نظامت کے فرائض پاکستانی ڈائاسپورا کی ایک ممتاز رکن، مصنفہ اور ابوظہبی میں نیویارک یونیورسٹی میں انسٹرکٹرمحترمہ صباء کریم خان، نے بڑے احسن اندازمیں انجام دیئے۔ تقریب میں سفیرپاکستان فیصل نیاز ترمذی ،سفارت خانہ کے اعلی افسران، ماہرین تعلیم، بینکرز، ڈاکٹرز اور تاجروں سمیت پاکستانی پروفیشنلزکی ایک بڑی تعدادنے اس ادبی نشست میں شرکت کی ۔
یادرہے ڈاکٹراسامہ صدیق ان دنوں شارجہ انٹرنیشنل بک فئیرمیں شرکت کے لیئے یواے ای میں موجود ہیں ۔
ڈاکٹر اسامہ صدیق نے اپنی ابتدائی زندگی، تعلیم اور ادب کی طرف دلچسپی پیدا کرنے اور کتاب پڑھنے کے کلچر کو فروغ دینے میں خاندان کے افراد کے کردار کے بارے میں بتایا۔ڈاکٹراسامہ ” کی تصانیف میں”غروب شہرکاوقت”۔”چاندکوگل کریں توہم جانیں”اور۔”پاکستان ایکسپیرئنس ودفارمل لا” شامل ہیں
انہوں نے پاکستان سمیت برصغیر کے بھرپور ادبی ورثے پر روشنی ڈالی اور اردو، انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ادب کی ترقی میں پاکستان کے نامور ادیبوں کے اہم کرداروں کاذکرکیا۔ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے، ڈاکٹر صدیق نے بچوں کو ان کے ابتدائی سالوں سے ہی پڑھنا شروع کرنے کے لیے رہنمائی کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور بچوں کو پڑھنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اگر ضرورت ہو تو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا مشورہ دیا۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ اہم مقصد پیغام پہنچانا ہے اور یہ یا تو کتاب پڑھنے، سننے یا معلوماتی ویڈیوز دیکھنے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔اسامہ صدیق نے کہا کہ مصنف کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ایجنڈے پرنہ چلےبلکہ وہ اپنے آپ پہ لکھے ،معاشرے پرلکھے۔اورمیرے خیال میں بڑے شہروں کی بجائے چھوٹے شہروں زیادہ پڑھنے والے موجودہیں،ریڈرشپ میں کمی کی بنیادی وجہ کتابوں کامہنگاہونا اور انکی بہترمارکیٹنگ کانہ ہونابڑاعنصرہے۔
مشہور عالمی شخصیات باقاعدگی سے کتاب پڑھنے کی عادی ہیں جسکی کئی مثالیں موجود ہیں انہوں نے کہا کہ کتابیں پڑھنے سے بچنے کے لیے متعدد وعدوں کو منطقی عذر کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی مصنفین جو اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کو ادب کے ذریعے پیش کرتے ہیں انہیں پہلے قومی سطح پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ بعد کے مرحلے میں انکا عربی اور انگریزی سمیت دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے۔ علم وادب پرمبنی یہ خوبصورت سیشن ڈاکٹر اسامہ صدیق اور کمیونٹی کے اراکین کے درمیان ایک انٹرایکٹو بحث کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔