اسلامی ممالک تنظیم (او آئی سی) نے گزشتہ روز بھارتی حکومت پر مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافک ڈھانچے کو تبدیل کرنے اور کشمیریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا جسے بھارت نے اپنی روایتی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
اُدھر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے ردعمل میں کہا کہ او آئی سی نے ایک بار پھر بھارت کے اندرونی معاملات پر غیر ضروری بیان دیا ہے۔ بھارتی حکومت جموں و کشمیر سے متعلق او آئی سی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے اپنے دیرینہ مؤقف کا اعادہ کرتی ہے کہ جموں و کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور اس بارے میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم مقبوضہ کشمیر سے متعلق بیانات پاکستان کی ایما پر جاری کرتی ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے جنرل سکریٹریٹ نے پیر کے روز اپنے متعدد ٹویٹ بیانات میں کہا تھا کہ اُسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیرقانونی نئی انتخابی حدود، علاقائی آبادی کے ڈھانچے میں تبدیلی اور کشمیری عوام کے حقوق کی خلاف ورزی پر گہری تشویش ہے۔ او آئی سی نے کشمیریوں کی طویل جدوجہد کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
تنظیم نے کہا کہ کشمیر میں حد بندی کا عمل، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور چوتھے جنیوا کنونشن سمیت تمام بین الاقوامی قوانین کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ او آئی سی نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہوئے اس معاملے میں اقوام متحدہ سے مداخلت اور سلامتی کونسل سے نوٹس لینے کی اپیل کی۔
Advertisement
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے چند روز قبل ہی مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی ازسرنو حد بندی کے عمل کو مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ مودی حکومت کے ماتحت حد بندی کمیشن نے جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں نشستوں کا اضافہ کیا ہے جبکہ بہت سی نشستیں مخصوص بھی کر دی ہیں۔مبصرین کے مطابق ان حربوں کا مقصد مسلم اکثریتی خطے کشمیر میں بھی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی قیادت میں حکومت قائم کرنا ہے تاکہ جمہوریت کی آڑ میں کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کی جا سکے۔
او آئی سی نے بھی اسی تناظر میں نئے بیانات جاری کیے ہیں تاہم پہلے کے مقابلے میں اس بار سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ چند روز قبل پاکستانی پارلیمنٹ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں نئی حد بندی کے خلاف ایک قرارداد منظور کی تھی۔ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں، بشمول بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں اور کئی دیگر حلقوں نے بھی مودی حکومت کے ان ہتھکنڈوں پر کڑی تنقید کی ہے اور اس کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔