بھارت میں گذشتہ ایک ہفتے سے جاری پرتشدد مظاہروں اور مختلف حلقوں کے سخت ردِ عمل باوجود متنازع اگنی پتھ منصوبے کے تحت فوج میں بھرتی کا پہلا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔
جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق بھرتی کے لیے رجسٹریشن کا عمل اگلے ماہ یعنی جولائی سے شروع ہو گا۔ سپاہی کے لیے جنرل ڈیوٹی کے لیے دسویں پاس جبکہ ٹیکنیکل کیڈر اور کلرک و سٹور کیپر کے لیے بارہویں جماعت پاس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
بھارت کی تینوں دفاعی افواج (بری فوج، بحریہ اور فضائیہ) کے سینیئر عہدیداروں نے منگل کو نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران اگنی پتھ کی منسوخی یا اس میں ترمیم کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگنی ویر بھی دوسرے جوانوں کی طرح گیلینٹری ایوارڈز یا بہادری کے اعزازات کے حقدار ہوں گے۔
اگنی پتھ منصوبہ
اس منصوبے کو بھارتی حکومت اصلاحات پر مبنی ایک ایسی پرکشش بھرتی سکیم کے طور پر پیش کر رہی ہے جس کے تحت پہلے سال 46 ہزار نوجوانوں کو بھرتی کیا جائے گا لیکن اس کا اصل اور بنیادی مقصد فوجیوں کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر آنے والے خرچے کو کم کرنا ہے۔تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس منصوبے کا مقصد سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں بھرتی کے لیے نوجوانوں کو سرکاری سطح پر تربیت دینا ہے۔
Advertisement
اسکیم کے خلاف بھارت میں حزب اختلاف کی تمام جماعتیں بھی برسرِ احتجاج ہیں جبکہ کئی سابق فوجی افسران بھی اس کی کھل کر مخالفت کر چکے ہیں۔
دانشوروں کی نظر میں
غزالہ وہاب جو کہ بارن اے مسلم نامی کتاب کی مصنفہ ہیں اس منصوبے کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ حکومت پیسہ بچانا چاہتی ہے کیوں کہ اسے زبردست مالی تنگی کا سامنا ہے۔ صاف اور واضح الفاظ میں کہوں تو حکومت کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں۔ ہماری اقتصادی حالت اتنی خراب چل رہی ہے کہ ملک میں بےروزگاری کی شرح اب تک کی بلند ترین سطح پر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت متعارف کیے جانے سے پہلے بھارتی فوج میں نوکری ایک ایسی پندرہ سالہ مدتی سرکاری نوکری ہوتی تھی جس سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی ایک فوجی آرام سے اپنی زندگی گزار لیتا ہے۔ مختصر المدتی ملازمت والی سکیم کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کا جذبہ ڈگمگا سکتا ہے۔ اس سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی وجہ سے رجمنٹیشن پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایک فوجی کا اپنی رجمنٹ یا پلٹن کے تئیں بے پناہ عقیدت اور محبت ہوتی ہے۔ فوج میں کہا ہی جاتا ہے کہ جب فوجی لڑتے ہیں تو وہ ملک سے زیادہ اپنی پلٹن کے لیے لڑتے ہیں۔
غزالہ وہاب نے بھارتی فوج میں بھرتی کے حوالے سے کہا کہ بھارتی فوج میں بھرتی کی ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت خاندان ایسے ہیں جن میں فوج میں نوکری کرنے کی روایت کافی پرانی ہے۔ہر سال فوج میں بھرتی ہونے والے 60 فیصد نوجوانوں کا تعلق ان ہی خاندانوں سے ہوتا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہوتے ہیں جن کے باپ دادا فوج میں رہے ہوں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کی اس منصوبے کے اعلان پر جہاں ایک بڑی تعداد کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں بھارت کے بڑے کاروباری گروپ ٹاٹا کمپنیز نے اس اعلان کو ’ایک انقلابی قدم‘ قرار دیا ہے جبکہ دیگر کئی کاروباری شخصیات نے بھی اس سکیم کی حمایت کی ہے۔