عرب امارات اور اسرائیل میں تعلقات اہم تاریخی سفارتی کامیابی ہے : عبداللہ بن زاید آل نہیان

دونوں ممالک کے اس معاہدے سے اسرائیلی تسلط رک گیا ہے

115

ابوظہبی ٰ(اردوویکلی):: متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنا ایک تاریخی سفارتی اہم کامیابی ہے اس نے مشرق وسطی میں امن کی جانب پیشرفت کی امید دلائی ہے –اس پیشرفت میں فلسطین کی ریاست کو مرکزی اہمیت حاصل ہے ۔  دونوں ممالک کے اس معاہدے سے اسرائیلی تسلط رک گیا ہے ، فلسطین کی قیادت کو اس وقت کو استعمال کرتے ہوئے خود کو اپنے ایشو پر نئے سرے سے منظم کرنا چاہیئے اور بامقصد بات چیت میں دوبارہ شامل ہونا چاہیئے ، انہیں ماضی کی طرح متحدہ عرب امارات کی مکمل حمایت ملے گی اور وہ اب زیادہ تقویت کے ساتھ اسرائیل سے براہ راست بات کرسکتے ہیں ان خیالات کااظہار وزیر برائے امور خارجہ و بین الاقوامی تعاون عزت مآب شیخ عبداللہ بن زاید آل نھیان کے وال سٹریٹ جرنل میں شائع  تبصرے میں کیا گیا ہے۔ شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے کہاکہ تعلقات کو معمول پر لانے کی رفتاراور ماحول کو فلسطین کی ریاست اور حقوق پر پیشرفت سے لاتعلق نہیں رکھا جاسکتا – ( تبصرے کا تفصیلی متن)۔

دو ہفتے قبل جب تل ابیب سے آنے والی پہلی اسرائیلی کمرشل پرواز ابوظہبی میں اتری تو اس کے ساتھ اسرائیلی حکام اور میڈیا کا بڑا وفد آیا ، وہ ایک بہت بڑا پیغام لے کر آئے ، العال طیارے پر تین زبانوں میں دو فٹ اونچے الفاظ لکھے تھے ، امن ، شالوم ، سلام ۔ دونوں ممالک میں تعلقات کا قیام تاریخی سفارتی کامیابی ہونے کے ساتھ مشرق وسطی میں پیشرفت ممکن ہونے کا امید افزاء اشارہ بھی تھا ، گزشتہ ہفتے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے بحرین کی جانب سے بھی اعلان ہوا ، یہ صورتحال علاقے کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک اہم موقع ہے ، ایک ایسے دور اور ماحول میں جب سب بری خبروں سے بھرا ہوا ہے ، یہ تصادم اور شکست کے خلاف موقع اور امید پیدا کرتا ہے – ایسی قوتوں پر قابو پانا مشکل ہوگا ، غیرعرب ممالک اور غیرریاستی عناصر کا ہجوم مزاحمت کی شکل میں موجود ہے، وہ شدت پسندی کے حامی ہیں ، وہ کھوئی سلطنت یا نئی خلافت کے خواہاں ہیں ، انہوں نے تصادم ، بدامنی اور عدم استحکام پیدا کیا اور اپنایا ، وہ امریکہ ، اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کیخلاف اور تعلقات معمول پر آنے کے انتہائی مخالف ہیں – رواں ہفتے امن معاہدے پر دستخط ہونا ان کیلئے واشگاف پیغام ہے ، یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ امارات اور اسرائیل اور مشرق وسطی کے تمام لوگ تصادم سے تنگ آچکے ہیں ، اب ترجیح یہ ہے کہ ہم اپنے معاشروں کو جدید بناتے ہوئے خطے کو استحکام بخشیں ، عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اچھے تعلقات اس میں معاون ہونگے لیکن ہمیں دیگر محاذوں پر بھی  محرک ہونا ہے – سب سے پہلی ترجیح کشیدگی کو کم کرنا اور امن و سلامتی پر علاقائی مذاکرہ شروع کرنا ہے ، ہم معمول کے تعلقات پر مبنی ہمسائیگی چاہتے ہیں ، مصدقہ طور پر عدم پھیلاؤ اور عدم مداخلت والے معاہدے ہمارا ہدف ہیں لیکن توقعات بہت کم بھی ہیں جبکہ اہداف بلند ترین ہیں ، ایسے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر معاونت اور کورونا وائرس کے تدارک کیلئے پیشرفت ایسا اعتماد پیدا کرسکتے ہیں ۔ ایسی کوششوں کیلئے امریکہ کی حمایت بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ صدر ٹرمپ نے آئیندہ سال نئے مذاکرات کا کہا ہے اور سابق نائب صدر جو بائیڈن نے بھی واضح کیا ہے وہ بھی نئے اقدام کے حامی رہیں گے ، خلیجی ریاستوں کو کسی بھی مذاکرے میں براہ راست شامل ہونا چاہیئے اور اس کا ایجنڈا لازمی طور پر جامع ہونا چاہیئے – دوسری ترجیح معاشرے کو پرامن بقائے باہمی کی جانب لے جانا ہے ، منفی مقاصد والی مزاحمت اور فرقہ ورانہ شدت پسندی نے دہائیوں پر مبنی وباء ، افراتفری اور ہلاکت خیزی دی ہے ، متحدہ عرب امارات میں نئی مثال قائم کی گئی ہے جس میں جدید اسلام کی حقیقی روح کو اپنایا گیا ہے ، امن و تعلق کو ۔ گزشتہ سال خطے میں پوپ کا پہلا دورہ منعقد کیا گیا ، ابوظہبی میں ابراھیم فیملی ہاؤس تعمیر کیا جارہا ہے جس میں مسجد ، چرچ اور یہودی عبادت گاہ ایک ہی کمپلیکس میں واقع ہونگے – تیسری ترجیح ایک ایسا طاقتور انجن بنانا ہے جو معاشی اور ثقافتی تبادلے کو ممکن بنا کر خطے میں افہام و تفہیم کے مواقع پیدا کرے جو خلیج سے بحیرہ احمر اور سوئز کینال سے مشرقی میڈیٹیرین تک ہو ، جو عرب خطے میں وسعت پائے جوکہ دنیا بھر کیلئے آنے جانے کا راستہ ہے ۔ عرب امارات اور اسرائیل کو اپنی جدید معیشت اور انفراسٹرکچر کو استعمال میں لانا ہے اور ایک ایسا انسانی وسیلہ بنانا ہے جس میں اردن ,  مصر اور فلسطین سمیت سب کو فائدہ ہو – پیشرفت اور فلسطینی ریاست مرکزی اہمیت کے حامل ہیں ، امارات اسرائیل معاہدہ تسلط کو روکتا ہے ، فلسطینی قیادت کو اس تاریخی لمحے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہونا چاہیئے ، انہیں ہمیشہ کی طرح عرب امارات کی مکمل حمایت حاصل رہے گی ، وہ زیادہ تقویت کے ساتھ اسرائیل سے براہ راست بات کرسکتے ہیں ، تعلقات کو معمول پر لانے کی رفتار اور ماحول کو فلسطین کی ریاست اور حقوق پر پیشرفت سے لاتعلق نہیں رکھا جاسکتا – تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل اور اسکی سکیورٹی یقین دہانیوں کو صرف امریکی سفارتکاری کے اثر سے ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک مشکل سال میں خطے میں ہونے والا امن معاہدہ مشرق وسطی کے مستقبل کا روشن آغاز ہے ، عرب امارات اور اسرائیل نے بھرپور توانائی پر تعاون شروع کیا ہے جو کہ انسداد کورونا وائرس ،  ٹیکنالوجی کے فروغ ، خلائی ، توانائی ، سرمایہ کاری ، فوڈ سکیورٹی پرمبنی ہے ، نوجوان اماراتی عبرانی سیکھ رہے ہیں ، اماراتی جامعات میں اسرائیلی طلباء بھی آئیں گے ، آئیندہ سال سے دونوں ممالک میں باقاعدہ پروازیں چلیں گی ، یہ اور ایسے دیگر ہزاروں چھوٹے بڑے اقدامات امن ، شالوم اور سلام کا پیغام خطے میں پہنچائیں گے( بشکریہ وام)۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }