کیا وقت پر انتخابات کا انعقاد ممکن ؟؟؟

16

کیا وقت پر انتخابات کا انعقاد ممکن ؟؟؟

 معروف کالم نگار،سینئیرتجزیہ کار ،ماہربین الاقوامی امورو سابق سفیر،ڈاکٹرجمیل احمد خان  
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے صبر آزما موڑ سے گزررہا ہے۔ مہنگائی، بھوک، بدحالی اور معاشی عدم استحکام نے پاکستان کے حالات کو ایسی نہج پر پہنچادیا ہے کہ ہر ذی شعور مستقبل کے حوالےسے شش و پنج کا شکار ہے۔ تاہم ایسے کڑے اور مشکل حالات میں کچھ بہتری کے آثار بھی نظر آنا شروع ہوئے ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری انتخابات کا انعقاد مشکل دکھائی دیتا ہےپاکستان کی پارلیمان میں ان دنوں بل پاس ہونے کی نئی روایات قائم ہورہی ہیں، 4روز میں 54 بلوں کی منظوری نے 2 سال قبل 2021 میں 32 بلوں کی منظوری کے اقدام کی یاد تازہ کردی ہے۔اگر بلز کی منظوری کے قواعد اور ارکان کی دلچسپی کی بات کی جائے تو اس کیلئے بجٹ کی مثال زیادہ بہتر ہوگی کہ بجٹ پیش کرنے سے ایک روز قبل پارلیمنٹرینز کو 6 سے 7 جلدیں تھمادی جاتی ہیں اور حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرکے بری الذمہ ہوجاتی ہے
ایک روز میں 6 سے 7 جلدوں کو پڑھنا اور سمجھنا کوئی اآسان کام نہیں، ہاں اگر یہی دستاویزات کم و بیش ایک ہفتہ قبل فراہم کردی جائیں تو ارکان اس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ تیاری کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بلز پر بحث بھی برائے نام ہی ہوتی ہے کیونکہ ایوان میں اکثر اراکین صرف حاضری لگواکر اپنے الاؤنسز کھرے کرنے کیلئے آتے ہیں جبکہ بلز کی منظوری یا نامنظوری سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا، فیصلہ وہی ہوتا ہے جو پارٹی کا سربراہ اور چند حواری پہلے ہی کرچکے ہوتے ہیں۔
ہمیں یہ بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ آخر ہماری پارلیمنٹ کب اتنی فعال رہی ہے کہ ہر بل پر باقاعدہ بحث و مباحثہ کیا جاتا ہو۔ ایوان میں بیٹھے ممبران پر نظر ڈالیں تومتوسط طبقے کے چار یا پانچ ہی لوگ موجود ہوں  گے۔ ہمارا ملک کچن کیبنٹ کے دم پر چلتا ہے جس میں صرف چند مخصوص چہرے اور نام شامل ہوتے ہیں جو قیادت کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ اگر کوئی جماعت غریب یا متوسط طبقے سے کسی کو نمائندگی دیتی بھی ہےتو وہ محض نمائشی ہوتی ہے
جس ملک میں ایک غریب بچی کو مار مار کر ادھ موا کردیا جائے اوراس جرم میں ملوث ایک جج کی بیوی کو بار بار ضمانت قبل از گرفتاری دے دی جائے تو اس پر کوئی آواز نہیں اٹھتی، ایسے میں حکومتی حلقے چاہے کسی بھی قسم کے ہوں ان سے عوام کو کوئی غرض نہیں کیونکہ اس وقت حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس میں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے علاوہ کسی معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔
عوام کی جمہوریت اور جمہوری نظام چلانے والوں سے آس، امید اور توقعات ختم ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے بھوک، افلاس، مہنگائی اور غربت کے مارے عوام کو نگراں حکومت یا دیگر امور سے اس وقت کوئی مطلب نہیں رہا۔بقول شاعر :
سانس ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آس ٹوٹ جانے سے
ہمیں امید قائم رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان کے دگرگوں اور ناگفتہ بہ حالات میں آج کل کسی حد تک امید کی کرن نظر آئی ہے۔ پہلے بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں کرپشن اور مختلف محکموں کے دھکے کھانے کی وجہ سے پیسہ لگانے سے گریز کرتے تھے لیکن اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی)کے قیام کے بعد سرمایہ کاری کیلئے ماحول سازگار ہونے کی توقعات پیدا ہورہی ہیں۔
پارلیمنٹ سے جو بل پاس کروایا گیا ہے اس کے تحت سرمایہ کاروں کے تحفظات فوری دور کرنے میں مدد ملے گی اور خوش آئند بات یہ ہے کہ عسکری قیادت خود اس منصوبے کا حصہ ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی حکومت آئے یا جائے، اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی سہولت کاری کا عمل جاری و ساری رہے گا جو سرمایہ کاروں کی تسلی اور اطمینان کا باعث ہے
حال ہی میں چین کے نائب وزیراعظم کا دورۂ پاکستان بھی بہت اہمیت کا حامل ہے، پاکستان سے گزشتہ سال 10 لاکھ کے قریب شہری ملک چھوڑ کر چلے گئے، سیکڑوں نوجوان غیر قانونی راستوں سے کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کی امید میں اپنی زندگیاں گنوارہے ہیں لیکن سی پیک کے دوسرے فیز، منرل سمٹ اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کی کاوشوں سے امید ہے جلد پاکستان میں بہتری کا سورج ضرور طلوع ہوگا۔
اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے حوالے سے آئین بالکل واضح ہے، مقررہ مدت پر اسمبلی ختم ہو تو 60 اور اگر ایک روز پہلے بھی تحلیل ہو تو انتخابات کیلئے 90 روز کا وقت مقرر ہے تاہم وزیراعظم شہبازشریف نے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کا عندیہ دیا ہے اور نئی مردم شماری پر انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو کم سے کم 4 ماہ کا وقت درکار ہوگا
پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ 5 برسوں میں پاکستان کے حالات کو فاقہ کشی، مہنگائی، بدحالی اور معاشی ابتری کی دلدل میں پھنسادیا ہے۔ ان حالات میں انتخابات کے التوا کا غیر معمولی فیصلہ ہونا وقت اور حالات کی مناسبت سے ممکن ہوسکتا ہے اور شنید یہ ہے کہ اس حوالے سے اندرون خانہ کام بھی جاری ہے۔اس وقت اگر ہم زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو کونسل آف کامن انٹرسٹ میں مختلف صوبوں کے درمیان محاذ آرائی کا عنصر غالب ہے لہٰذا مردم شماری کی منظوری کے حوالے سے بھی کافی حیل و حجت کے امکانات ہیں ۔ اس لیے راقم الحروف جس نظر سے حالات کی سمت کو دیکھ رہا ہے اس میں یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ ملک میں آئندہ دوسال تک انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }