اتفاقی واقعات پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے مگر وہ اتنے یقینی ہوتے ہیں کہ ان پر یقین نہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے (جان گرین)۔امیریکن ٹی وی پر 1989ء سے 1993ء تک کوانٹم لیپ کوانٹم لیپ کے نام سے ایک سائنس فکشن سیریز پیش کی گئی۔ اس کی ایک قسط میں ایک سابق سائنس دان سام بیکٹ ایک تجربے کے دوران وقت میں پھنسنے کے بعد غلطی سے ایک دوسرے آدمی کے جسم میں گھس جاتا ہے۔ اسی طرح امیریکن نظریاتی سائنس دان لارنس ایم کراس نے 2011 میں "کوانٹم مین” (کوانٹم مین) کے عنوان سے نوبل انعام یافتہ سائنس دان رچرڈ فینمین کی سوانح عمری لکھی جس میں رچرڈ فینمین کی سائنسی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ میرے اس کالم کا عنوان کوانٹم ہیومین ہے۔ مذکورہ بالا یہ دونوں معلومات مجھے اس کے بعد ملی جب میں یہ کالم لکھ چکا تھا۔ کیا! یہ محض اتفاق ہے کہ میں نے ان دونوں معلومات کو پڑھے بغیر وہی باتیں لکھیں جو تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پہلے ہی بیان کی جا چکی تھی؟ میری اس تحریر کا عنوان اور مرکزی خیال بلکل ایک جیسا ہے۔ سائنس کی زبان میں اسے پروبیبلٹی اور عام زبان میں اسے اتفاق کہتے ہیں۔
کچھ سائنس دان انسانی دماغ کو کوانٹم کمپیوٹر میں منتقل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ گو کہ ہماری زندگی جسم اور دماغی نیورانز پر مبنی یاداشت اور شعور کا نظام ہے۔ تاہم خود ہم کوئ الگ چیز ہیں۔ ہم اور ہماری زندگی مختلف نوع کے علوم کا موضوع ہیں۔ ہماری سرگرمیاں جہاں مزہب، فلسفے، میٹا فزکس، سائنس اور دماغی علوم میں زیر بحث لائ جاتی ہیں وہاں "ہمیں” سماجی علوم، حالات حاضرہ، سیاست اور معاشیات میں بھی ڈسکس کیا جاتا ہے۔ ہم کثیر المضامین ہیں کیونکہ ہم وہ نہیں ہیں جو ہمارا جسم ہے بلکہ ہم وہ ہیں جو ہماری روح ہے۔ ہمارے خیالات، ہمارے تجربات، ہماری عقل اور ہماری یاداشت غیر مادی چیزیں ہیں۔ ان سب کے اوپر ہمارا شعور ایک "کنٹرولر” کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگرچہ ہم سٹیل، فائبر گلاس اور ربڑ کی تاروں سے بنی ہوئ غیر بیالوجیکل شے میں خود کو زندہ نہیں رکھ سکتے ہیں۔ تاہم انسان کے دماغ کا مشینی شکل میں منتقل ہو کر دوبارہ مربوط یا منظم ہونا ایک انتہائ انوکھا کام ہو گا۔ بائیو شکل میں انسان کا خود کو زندہ رکھنا اور زندگی کے ڈھانچے کو مادی مشینوں میں قائم کرنا ایک بلکل نیا تجربہ ہو گا۔ ہم پراسرار جناتی مخلوق نہیں ہیں کہ بغیر ارتقاء کئے اپنے مادی جسم پر کوئ نیا مادی جسم چڑھا لیں جو جذبات سے یکسر عاری ہو۔ چہ جائیکہ زندگی کا اصل لطف تو خون، گوشت پوست اور گونا گوں جذبات میں ہے۔
اگرچہ میڈیکل سائنس کے ذریعے ہم اپنے جسم کے کچھ اعضاء تبدیل کرنے پر قدرت حاصل کرنے لگے ہیں۔ تاہم جب ہم کوئ بہتر جسم حاصل کرنے پر قادر ہو جائیں گے یعنی خود کو کسی دوسرے جسم میں منتقل کریں گے تو کیا ہم وہی انسان ہونگے جو ہم نیا جسم حاصل کرنے سے پہلے تھے؟
اگر کوانٹم سائنس کے انقلاب نے انسان کو مرضی کا جسم حاصل کرنے اور اسے تبدیل کرنے کی سہولت فراہم کر دی تو یہ کامیابی ہمارے مادی جسم کو وقتی طور پر موت آنے کے مسئلے کو حل کرنے کے قریب پہنچا دے گی۔ آسان لفظوں میں اس کی مثال یہ ہے کہ جب ہمارا کوئ اعضاء یا نظام بیمار یا خراب ہونے لگے گا یا ہمارا پورا جسم ہی ناکارہ ہونے کے قریب ہو گا تو ہم آپریشن یا کسی دوسرے کوانٹم سسٹم کی مدد سے پورا جسم ہی تبدیل کر لیا کریں گے
حادثات اور بیماریوں وغیرہ کے بارے میں وقت سے پہلے آگاہی حاصل کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ آج ہم کائنات کے بڑے اجسام کی حرکات کا علم رکھتے ہیں، روز موسموں کا حال بتاتے ہیں اور سورج و چاند گرہن کے بارے میں عین درست پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ آنے والے ادوار میں جب ہمارے اور ہمارے جسم کے ساتھ کسی خطرناک واقعہ کے پیش آنے کا امکان ہو گا تو ہمیں قبل از وقت پتہ چل جایا کرے گا اور ہم "جنات” کی طرح فورا اپنا جسم بدل لیا کریں گے۔
1998 میں کیلیفورنیا یونیورسٹی نے پہلا کوانٹم کمپیوٹر ایجاد کیا تھا۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود گزشتہ سال کے وسط تک پوری دنیا میں کل 11 کوانٹم کمپیوٹر تھے. 23 اکتوبر 2019 میں گوگل نے اعلان کیا کہ ان کے سائنس دان 2023 کے آخر تک کوانٹم کمپیوٹر لانچ کر کے کوانٹم کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کر لیں گے جن کے لانچ کردہ کمپیوٹرز کو کارپوریٹ بزنس، تحقیق اور سائنس کی ترقی کے لئے بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ گوگل کے مطابق کوانٹم کمپیوٹر جو کام 3 منٹ میں کر سکے گا اسے موجودہ سب سے طاقتور سوپر کمپیوٹر 10 ہزار سال میں مکمل کرتے ہیں۔ اگر کوانٹم کمپیوٹر کی یہ کارکردگی مسلمہ ہے تو موجودہ مائیکرو پروسیسر کو گہرائی تک سمجھنے والا علم بیکار ہو جائے گا جس کے بعد انسان اپنے خیالات، یاداشت اور شعور کو کمپیوٹرز میں لامحدود حد تک سیو کرنے کے قابل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔(بقیہ جاری ہے)۔