خود کو قصوروار ٹھہرانے کی ذمہ داری اٹھانا بہت بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ہماری نفسیات ہے کہ ہماری اکثریت اپنی غلطیوں کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ ہمارا گھر ہو، دفتر ہو، تعلقات ہوں یا ایک دوسرے سے لین دین اور کاروبار کا معاملہ ہو، خرابی کی صورت میں ہم اپنی ذمہ داری کو قبول کرنے میں سخت ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا اعلی ‘تہزیب’ اور ‘پختہ زہنیت’ کی علامت ہے۔ لیکن ایک ہم ہیں کہ ہم جب بھی کوئی غلطی کرتے ہیں چاہے وہ کوئی ‘بلنڈر’ ہی کیوں نہ ہو، ہم اس کا الزام دوسروں کو دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ‘الزام تراشی’ باقاعدہ ایک بدترین ‘معاشرتی برائی’ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
اپنی غلطیوں کا الزام دوسروں کو دینے سے ایک تو معاشرے کے تنقیدی ذہن کا قلع قمع ہو جاتا ہے دوسرا عوام الناس میں کینہ، ناانصافی، دشمنی اور ‘منافقت’ پروان چڑھتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ شعوری طور پر ترقی یافتہ اقوام اپنی غلطیوں اور ناکامیوں وغیرہ کو تسلیم کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتی ہیں۔ جاپان میں ہیروشیما اور ناگا ساکی کے شہروں پر جب امریکہ نے ایٹم بم گرائے تو جاپان کے بادشاہ ہیرو ہیٹو جو جاپان کی تاریخ میں طویل ترین عرصے سے تخت نشین تھے، انہوں نے ریڈیو پر آ کر شکست تسلیم کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی جس کے بعد جاپانی قوم نے ‘تسلیمیت’ کے اس رویئے کو اپنا ‘قومی رویہ’ بنا کر زندگی کے ہر میدان میں وہ کچھ سیکھا کہ جس کی بنیاد پر جنگ عظیم دوم کے بعد تیز ترین ترقی کرنے میں جاپان دنیا میں پہلے نمبر پر آ گیا۔
ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ جدید خطوط اور تقاضوں پر مبنی اپنا نیا تعلیمی نظام خود طے کرنے کی بجائے ہم ہمیشہ سے ‘لارڈ_میکالے’ کے 1835 کے "نظام تعلیم” کو الزام دیتے آئے ہیں۔ آج تقریبا 2صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہم اسی نظام کا حصہ ہیں! کہا جاتا ہے کہ 2فروری 1835 میں ‘لارڈ میکالے’ نے کہا تھا کہ اس نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا اور اسے وہاں کوئی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ ان کے بقول اس ملک میں انہوں نے بہت دولت دیکھی، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند تھی اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی تھی کہ ان کے خیال میں برطانوی تاج اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتا تھا جب تک ان کی ‘دینی’ اور ‘ثقافتی اقدار’ کو توڑ نہ دیا جاتا جو انکی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔
ہم آج لارڈ میکالے پر یہ الزام لگاتے نہیں تھکتے کہ انہوں نے ہندوستان کو اپنا ‘انگریزی نظام تعلیم’ دے کر ہماری قدیم تہذیب کو تباہ کر دیا۔ لیکن ہم یہ تحقیق نہیں کرتے کہ خود ہم نے قومی ترقی کرنے کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید علوم پر مبنی کونسا بہتر اور متبادل نظام تعلیم دیا ہے؟ قومی وقار اور تہذیب صرف فاتح قوموں کی ہوتی ہے۔ ہم تو ابھی تک مغرب کی مغلوب قوم بن کر جی رہے ہیں۔ ہم پر آج بھی انگریزوں کی نوازیدہ ‘اشرافیہ’ حکمران ہے جو چاہتی ہی نہیں کہ حکمرانی ‘آکسفورڈ’، ‘ایچی سن’ اور ‘برن حال’ سے باہر جائے۔
اگر یہ بات مان لی جائے کہ لارڈ میکالے کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں یا انہوں نے سر سید احمد خان سے مل کر محمڈن ایجوکیشن سوسائٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی وغیرہ کی بنیاد رکھ کر مسلمانوں کے ساتھ کوئی زیادتی کی تھی تو یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے۔ ان کی رائے میں ہندوستان کے لوگ تعلیم حاصل کر گئے تو وہ ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے، جس وجہ سے انہوں نے اپنے جدید نظام تعلیم کے ادارے ہندوستان میں قائم نہیں کیئے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 76سال ہو گئے ہیں ہم نے عالمی معیار کے کتنے تعلیمی ادارے قائم کیئے ہیں؟ آپ گوگل کر کے عالمی رینکنگ میں اپنے تعلیمی اداروں کا معیار اور نمبر چیک کر لیں آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا۔ بلکہ یہ راز طشت از بام کرنا ہماری ‘کتاب جہالت’ کا ایک شرمناک ترین باب ہے! وائسرائے ہند لارڈمنٹو نے تو پھر بھی تعلیمی اصلاحات کی ایک یاداشت کورٹ آف ڈائریکٹر کو بھیجی تھی جس کے بعد ایک لاکھ روپے کی سالانہ گرانٹ منظور ہوئی۔ لاہور کا ‘ایف سی کالج’ ،
اینگلوانڈین کالج، بنارس کا جے نرائن کالج اور آگرہ کالج وغیرہ اسی دور کی یادرگاریں۔ خدارا! جب تک ہم اپنی کمی کوتاہی کا ادراک نہیں کرتے ہم ذہنی بلوغت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی کی کوئی منزل طے کر سکتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا اپنی شکست کو تسلیم کرنے کا کام ہے جو خیر سے ہم نے بطور قوم ابھی تک سیکھا ہی نہیں ہے۔
افسوس کی بات ہے گورا لوگ اپنی ہر غلطی پر ‘سوری’ بولتے ہیں۔ یہ مغرب میں روزمرہ کی زبان میں سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ ہے۔ کاش! ہم بھی اپنی غلطیوں پر "سوری” بولنا سیکھ لیں!