مسلم مخالف پوسٹس
بھارت کے شہر کان پور سے پولیس نے ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کو سوشل میڈیا پر مسلم مخالف تبصرے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس نے آج بی جے پی کے نوجوان رہنما ہرشت سری واستو کو گرفتار کیا ہے۔ یہ گرفتاری ایسے وقت میں کی گئی جب پوری دنیا میں مسلمان بی جے پی ترجمانوں کے پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق توہین آمیز تبصروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
پولیس عہدیدار پراشانت کمار کے مطابق انہوں نے ایک مقامی سیاستدان کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تبصرے کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے جبکہ کان پور میں کشیدہ حالات کے دوران مزید 50 افراد کو بھی تحویل میں لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی جانب سے ایک ٹی وی مباحثے کے دوران پیغمبر اسلام ﷺ سے متعلق توہین آمیز تبصرے کے بعد ملک میں مختلف حصوں میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بی جے پی کے مطابق نوپور شرما کو ان تبصروں کے بعد پارٹی عہدے سے معطل کر دیا گیا ہے جبکہ ایک اور ترجمان نوین کمار جندال کو مسلم مخالف بیان پر پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔
Advertisement
اس واقعے کے بعد مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، ایران اور افغانستان نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پر معذرت کرے۔ ان ممالک نے بھارتی سفیروں کو مسلم مخالف تبصروں کے خلاف احتجاج کے لیے طلب بھی کیا۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ توہین آمیز بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے جب بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں شدت آئی ہے اور مسلمانوں کو منظم ہراسانی کا سامنا ہے جبکہ بھارتی وزارت خارجہ نے پیر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ قابل اعتراض ٹویٹس اور تبصرے کسی بھی طور حکومت کے نقطۂ نظر کی عکاسی نہیں کرتے۔
اس واقعے پر مسلم دنیا کے ردعمل نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ایک سفارتی چیلنج کھڑا کر دیا ہے کیونکہ وہ مسلم ممالک سے مضبوط روابط قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔