اکاؤنٹ میں رقم نہ ہونے کے باوجودچیک جاری کرناجرم تصورہوگا

جس پرسزاکااطلاق ہوسکتا ہے

162
فنڈز کے بغیر چیک جاری کرناجرم تصورہوگا
جس پرسزاکااطلاق ہوسکتاہے
یو اے ای میں چیک کے تعزیری تحفظ کے خاتمے اورجزوی ادائیگی سے متعلق قانونی ترامیم آئندہ سال سے نافذ العمل ہوں گی
اگر ادائیگی کے لیے دستیاب رقم چیک کی قیمت سے کم ہے، تو بینک کے لئے جزوی طور پر رقم ادا کرنا لازمی ہوگا
ابوظہبی(اردوویکلی)::متحدہ عرب امارات کے مرکزی بینک (سینٹرل بنک یواے ای ) نے بینک چیک کے ناقابل تعزیرہونے سے متعلق تجارتی لین دین کے قانون اورچیک کی جزوی ادائیگی سے متعلق ترامیم کرتے ہوئے رقم موجود نہ ہونے کے باوجود چیک جاری کرنے پر انتظامی سزاوں کو سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 2020 کے وفاقی قانون نمبر (14) کے آرڈر کے تحت 2 جنوری 2022 کو نافذ العمل ان ترامیمی قوانین کا مقصد بہترین بین الاقوامی معیارات کے مطابق ایک پائیدار قومی معیشت کواستوار کرنا ہے۔ یہ اقدام عالمی مسابقتی انڈیکس میں ملک کی درجہ بندی کو بڑھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ گورنرسینٹرل بنک آف متحدہ عرب امارات خالد محمد بلعمه نے بتایا کہ یہ ترامیم مرکزی بینک کے اسٹریٹجک اقدامات اورمالیاتی شعبے میں ہونے والی پیشرفت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کسی بھی قانونی سقم اور کوتاہی کو دور کرنےاور بینکنگ قوانین اور ضوابط کو مسلسل اپ گریڈ کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ مرکزی بینک کے گورنر نے وضاحت کی کہ نئی ترامیم سب سے بہترین اور کامیاب بین الاقوامی طریقوں سے مطابقت اختیار کرتے ہوئے چیک سے متعلقہ امور کو انجام دینے میں سامنے آنے والے منفی پہلوؤں کو کم کر دیں گی۔یواے ای کی سرکاری نیوزایجنسی وام کے مطابق نئی ترامیم سے انصاف کے اصولوں کو بھی مستحکم کیا جائے گا تاکہ چیک دینے والے اور لینے والے کے مفادات کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔ ان ترامیم کے تحت، ناکافی فنڈز کی وجہ سے واپس کیے گئے چیکوں پر معاملے کوقابل تعزیرجرم قرار دینے کا دائرہ محدود کرتے ہوئے اسے بدعنوانی اور چیک کے دیگرجرائم کے مقدمات کے تحت لایا گیا ہے۔یہ چیک کے غلط استعمال کو کم کرنے کے لیے متبادل سزاؤں کے ساتھ احتیاطی اقدامات کے ساتھ سزا کو تبدیل کرنے کے مطلوبہ اہداف کو پورا کرے گا۔ ان ترامیم کا مقصد چیک دینے اوراس سے مستفید ہونے والوں کے حقوق کو محفوظ بنانا اور زیادہ مؤثر طریقے سے چیک کی قیمت کی وصولی کا عمل تیز کرے گا۔ ان ترامیم کے تحت چیک کی جزوی ادائیگی بھی لازمی ہو گئی ہے۔ اگر ادائیگی کے لیے دستیاب رقم چیک کی قیمت سے کم ہے، تو بینک کے لئے جزوی طور پر رقم ادا کرنا لازمی ہوگا، جب تک کہ بیئرر جزوی ادائیگی لینے سے انکار کرے۔ اس موقع پر، مرکزی بینک کے گورنر نے اس حکم نامہ قانون کو جاری کرنے پر صدرمتحدہ عرب امارات عزت مآب شیخ خلیفہ بن زاید آل نھیان اور متحدہ عرب امارات کی کابینہ اور دیگر تمام متعلقہ اداروں کا شکریہ ادا کیا۔ وزیر اقتصادیات عبد الله بن طوق المري نے کہا کہ 2020 کے وفاقی حکم نامے کے قانون نمبر (14) کے مطابق، تجارتی لین دین کے قانون کی بعض شقوں میں ترمیم کرتے ہوئے، فنڈز کے بغیر چیک جاری کرنے کو مجرمانہ قرار دینا ملک میں اقتصادی، کاروباری، تجارتی اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کو منظم اور ترقی کے لیے ایک ضروری قدم ہے۔ وزیر اقتصادیات نے مزید کہا کہ آئندہ سال کے آغاز میں نافذ ہونے والے چیک کے تعزیری تحفظ کو ختم کرنے والی ترامیم متحدہ عرب امارات کی جانب سے اقتصادی بحالی کو تیز کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے، ان کوششوں میں اقتصادی پالیسیوں کو مستحکم کرتے ہوئے عالمی مسابقتی انڈیکس میں متحدہ عرب امارات کی درجہ بندی کواوپر لے کر جانا ہے۔ یہ اقدام ڈیجیٹل تبدیلی، جدید ڈیجیٹل ادائیگی کے نظام اور جدید مالیاتی ٹکنالوجی کے تازہ ترین عالمی رجحانات کے ساتھ اپنی رفتار کو برقرار رکھتا ہے۔ وزیر انصاف عبدالله بن سلطان بن عوض النعيمی نے کہا کہ چیک کے استعمال ان کی قیمت اور جرمانے کی وصولی کو منظم کرنے کے طریقہ کار سے متعلق تجارتی لین دین کے وفاقی قانون میں متعارف کرائی گئی ترامیم ایک قانون میں یکجا کردی گئی ہیں جس کا مقصد ملکی کاروباری ماحول ، قانون سازی اور عدالتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے منصوبے کے تحت علاقائی اور بین الاقوامی سطحوں پر مسابقت کو فروغ دینا، غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ اور مالیاتی شعبے میں متحدہ عرب امارات کے اسٹریٹجک وژن کو حاصل کرنا ہے۔ وزیر انصاف نے وضاحت کی کہ چیک پر اعتماد کو فروغ دینے کا واحد طریقہ بیئرر کے حقوق اوران کی متعلقہ ضمانتوں کو مضبوط کرنا ہے۔ اس وجہ سے، تجارتی لین دین کے قانون میں حالیہ قانون سازی کی ترامیم نئے متبادل اور طریقہ کار فراہم کرتی ہیں تاکہ چیک ویلیو کو تیز ترین اور آسان طریقے سے جمع کرنا یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ترامیم میں متعدد جرمانے متعارف کرائے گئے ہیں، جن میں مجرم سے چیک بک واپس لینا، زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک نئی چیک بک حاصل کرنے کا حق ختم کرنااور ان کی پیشہ ورانہ یا تجارتی سرگرمیاں معطل کرنا شامل ہے۔ النعیمی کا کہنا تھا کہ نئی ترامیم قانونی چارہ جوئی کے طریقہ کار کو آسان بنائیں گی، سول اور فوجداری عدالتوں کے سامنے استغاثہ کے دفاتر میں چیک سے متعلقہ کیسزکی تعداد کم ہوگی جس سے رقم اور وقت کی بچت ہوگی۔(نیوزبشکریہ وام)۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }