گزشتہ چند ماہ سے سخت معاشی بحران سے نبرد آزم سری لنکا کو ورلڈ بنک نے کسی بھی قسم کا نیا مالیاتی پیکچ دینے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ورلڈ بینک نے کولمبو کو نئی مالی امداد کی پیشکش سے انکار کر دیا ہے، جس کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی گئی ہے۔
سری لنکا ایک دیوالیہ ملک ہے، جس کے رہنما ملک سے پہلے ہی فرار ہو چکے ہیں۔
سری لنکا کا کہنا ہے کہ چونکہ ورلڈ بینک نے گہرائی سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے بغیر ملک کو نئی مالی امداد کی پیشکش سے انکار کر دیا ہے، اس لیے جمعے کے روز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج کے لیے دوبارہ بات چیت شروع کی گئی ہے۔
Advertisement
حکومت ملک کو پہلے ہی دیوالیہ قرار دے چکی ہے اور اس کی بدحال معیشت فی الوقت ’موت کی لپیٹ‘ میں ہے۔
گزشتہ روز جمعہ کو جاری کیے جانے والے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ کئی برسوں سے جاری مہنگائی کی شرح جولائی میں ریکارڈ 60.8 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی۔
یہ خبر ایک ایسے وقت آئی ہے، جب اطلاعات کے مطابق چین جنوبی سری لنکا میں ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ پر اپنا ایک فوجی جہاز بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔
سری لنکا نے یہ بندرگاہ چین کو لیز پر دے رکھی ہے اور بھارت کو اس بات کی تشویش لاحق ہے کہ چین اس کے بالکل عقب میں اس بندرگاہ کو فوجی اڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
Advertisement
بھارت نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے رواں برس سری لنکا کو تقریبا چار ارب ڈالر کے امدادی فنڈز فراہم کیے ہیں۔ تاہم چین سری لنکا کو سب سے بڑے قرضے فراہم کرتا رہا ہے۔
سری لنکا کی تقریبا سوا دو کروڑ کی آبادی گزشتہ کئی مہینوں سے خوراک اور ایندھن کی قلت کا سامنا کر رہی ہے۔
واضح رہے سری لنکن عوام کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ توانائی کی شدید قلت کا بھی سامنا ہے، اپریل میں سری لنکا 51 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ ادا کرنے میں ناکام رہا تھا.
رواں ماہ جولائی کے اوائل میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی وجہ سے سابق صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا، جو استعفیٰ دینے سے قبل ہی ملک سے فرار ہو گئے اور بعد میں ای میل کے ذریعے استعفی سونپا۔
Advertisement
ورلڈ بینک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ سری لنکا کی عوام کی قسمت کے بارے میں فکر مند ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ جب تک کہ ایک مناسب مائیکرو اکنامک پالیسی کا فریم ورک تیار نہیں ہو جاتا، اس وقت تک وہ فنڈز بھی نہیں فراہم کر سکتا۔
عالمی بینک نے سری لنکا سے ایسی گہری اسٹرکچرل اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے جو اقتصادی استحکام پر توجہ مرکوز کرتی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اس بحران کو پیدا کرنے والی بنیادی ساختی وجوہات کو دور کرنے پر بھی توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
دنیا میں غربت ختم کرنے کا سلوگن رکھنے والی ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اس نے پہلے سے منظور شدہ قرضوں میں سے بھی 160 ملین ڈالر کی رقم اس مد سے نکال لی ہے تاکہ اسے ادویات، کھانا پکانے کے لیے گیس اور اسکولوں میں کھانے کی فراہمی کے لیے مہیا کیا جا سکے۔
اس صورت حال میں سری لنکا کو فوری طور پر فنڈز کی اشد ضرورت ہے، تاہم اتنی سخت ضرورت کے باوجود آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج پر بات چیت مہینوں تک چل سکتی ہے۔
Advertisement
ادھر سری لنکا بھی ایک فعال حکومت کو بحال کرنے کی کوششوں میں ہے، جس میں ملک کے سابق وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں پچھلی حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے ایک وسیع اتحاد پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سری لنکا کے پاس زرمبادلہ کے وہ تمام ذخائر ختم ہو چکے ہیں، جس کی مدد سے وہ فوری طور پر ایندھن اور گیس جیسی ضروری اشیا خرید سکتا تھا۔
بنیادی اشیا کی قلت اور تباہ حال معیشت نے ملک میں سیاسی افراتفری کو جنم دیا اور پھر لوگ اس کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
ملک میں ڈرائیوروں کو گیس اور تیل کے لیے لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا ہے، جبکہ حکومت نے سرکاری ملازمین سے کہا ہے کہ وہ ایندھن کی بچت کے لیے گھر پر ہی رہیں۔
Advertisement
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا اندازہ ہے کہ اس بحران کے دوران سری لنکا کے 85 فیصد سے زیادہ لوگوں نے کم معیار کا کھانا خریدا اور بیشتر نے تو ضرورت سے کم کھایا یا بسا اوقات کھانا کھایا ہی نہیں۔
اس صورت حال کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ پہلے ہی جاری تھا، تاہم نو جولائی کو مظاہرین نے صدارتی محل پر ہی دھاوا بول دیا۔
مظاہرین کے صدارتی محل پر حملے کے بعد صدر راجا پاکسے استعفیٰ دینے سے پہلے ہی مالدیپ فرار ہوگئے تھے اور پھر وہاں سے سنگاپور چلے گئے۔
عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد رانیل وکرم سنگھے نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا اور بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرنے والے کچھ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
Advertisement