عیسائیوں کے عالمی ادارے نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں بھارتی ریاست یوپی کا پہلا نمبر قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق واشنگٹن ڈی سی میں واقع غیر ایک سرکاری عیسائیوں کی عالمی تنظٰیم (انٹرنیشنل کرسٹچن کنسرن) کا کہنا ہے کہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں بھارت کی سخت ریاست یوپی ہے۔
انٹرنیشنل کرسٹچن کنسرن کے صدر چیف کنگ کا کہنا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ریاست اترپردیش بھارت کی سخت ترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔
چیف کنگ نے اترپردیش کے ضلع فتح پور میں 100 عیسائیوں کے ایک اجتماع کے ساتھ ہونے والے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ جعرات کی عبادات میں مشغول تھے تو ہندوتوا کے ایک ہجوم نے چرچ کو گھیرے میں لے کر اس کے دروازے بند کردیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماؤنڈی جمعرات یا ہولی جمعرات ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب بہت سے مسیحی جیسس کا آخری فسح کا مشن منانے جمع ہوتے ہیں جس میں وہ ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے پاؤں دھوکر خدمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی حکام پر تشدد ہجوم کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے جب بھی متاثرین کو جیل میں ڈالتے ہیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے وہ خود مجرمانہ سرگرمیوں کی اجازت دیتے ہیں۔
اس قسم کے اقدام مذہبی آزادی کو روندنے اور ماحول کو خراب کرنے کے مترادف ہوتے ہیں جبکہ ایسے اقداموں سے مزید تشددکا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
چیف کنگ نے کہا کہ تبدیلی مذہب کا قانون فطری طور پر موضوعی اور ادراک پر مبنی ہے جس کا مقصد عیسائیون کو مذہبی آزادی کے حقوق سے محدود رکھنا ہے۔
واضح رہے کہ تبدیلی مذہب کا پہلا مقدمہ 36 عیسائیوں کے خلاف جبری طور پر مذہب منتقلی کا درج کرایا گیا تھا جو کہ پولیس نے تبدیلی مذہب کے مخالف قوانین کی بنیاد پر درج کیا تھا۔
اس مقدمے میں ہندوتوا رہنما ہمانشو ڈکشنٹ نے موقف اختیار کیا تھا کہ چرچ ہندوؤں کو عیسائی مذہب میں تبدیلی کے لیے کام کررہا ہے۔