بھارت، بنارس کی گیان واپی مسجد، بابری مسجد کے بعد انتہا پسند ہندوؤں کا نیا ہدف

82

ہندو قوم پرست اور انتہا پسند ہندو جماعتیں بھارت میں درجنوں مساجد کے مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔ 1992ء میں انتہا پسند ہندوؤں نے ایودھیا کی بابری مسجد کو منہدم کردیا تھا جہاں اب رام مندر کی تعمیر جاری ہے۔

متعدد مساجد میں پوجا پاٹ کی مذموم کوششیں بھی ہوتی رہیں اور کئی مساجد پر عدالتوں میں مقدمات بھی زیرسماعت ہیں۔ اب انتہا پسند ہندوؤں کا تازہ ترین ہدف مغل حکمراں اورنگزیب کی تعمیرکردہ بنارس کی گیان واپی مسجد ہے۔

انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ایک عدالت نے گیان واپی مسجد کا سروے کرانے کا حکم دیا جبکہ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پیر کے روز مسجد کے وضو خانے کے حوض کا سروے کیا گیا لیکن عدالت میں پیش کیے جانے سے قبل ہی یہ رپورٹ میڈیا میں افشا کر دی گئی جو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہے۔

انتہا پسند ہندوؤں نے افشا کی گئی وڈیو کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ وضو خانے کے حوض میں ہندوؤں کی مذہبی علامت “شیو لِنگ” پائی گئی ہے جبکہ مقدمے کے مسلم فریق کا کہنا ہے کہ وہ دراصل ایک ٹوٹا ہوا فوارہ ہے جس کے اوپری حصے پر ایک لمبا سوراخ بھی موجود ہے جو اس کے فوارہ ہونے کی دلیل ہے جبکہ شیو لنگ میں اوپر کوئی سوراخ نہیں ہوتا۔

Advertisement

سروے رپورٹ میڈیا میں افشا کیے جانے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر انتہا پسند ہندوؤں اور تنظیموں کی جانب سے مسلم مخالف بیانات کا طوفان آگیا جن میں گیان واپی مسجد کو منہدم کرنے کے مطالبے بھی کیے گئے۔

واضح رہے کہ بھارتی پارلیمنٹ نے 1991ء میں Place of Worship Act کے نام سے ایک قانون منظور کیا تھا جس کی رُو سے 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی وہ برقرار رہے گی اور اس میں کسی کو کسی قسم کی ترمیم کا حق نہیں ہوگا لیکن اِس کے باوجود ہندو انتہا پسند تنظیمیں اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ کرتی رہیں۔

الہ آباد ہائیکورٹ نے مذکورہ قانون کے خلاف ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے 2018ء میں کہا کہ کسی بھی مقدمے میں اسٹے آرڈر (حکمِ امتناع) کی مدت 6 ماہ ہوگی اور اس کے بعد وہ نافذ العمل نہیں رہے گا۔ انتہا پسند ہندو جماعتوں نے اسی کا سہارا لے کر 2019ء میں گیان واپی مسجد پر مقدمہ درج کرا دیا تھا۔

بھارتی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے مطابق 1937ء میں عدالت یہ بات طے کر چکی ہے کہ گیان واپی مسجد مسلم وقف کی ملکیت ہے۔ اگر خیالات کی بنیاد پر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی گئی تو ملک افراتفری کا شکار ہو جائے گا کیونکہ کئی بڑے بڑے مندر، بدھ اور جین مت کی عبادت گاہوں کو تبدیل کرکے بنائے گئے ہیں جن کی واضح علامات بھی موجود ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

@media print { body { color: inherit; /* Ensures that the color is maintained */ } }