امریکا نے مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اُس کے اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں میں اضافے پر اُسے تشویش ہے۔
2021ء میں دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے 2 جون کو جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں گزشتہ برس اقلیتی فرقوں پر ہوئے حملوں میں قتل، تشدد، دھمکی اور دیگر واقعات شامل ہیں۔ گائے ذبح کرنے یا گائے کا گوشت فروخت کرنے کے الزامات لگا کر غیر ہندوؤں پر تشدد کے بھی متعدد واقعات پیش آئے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور کثیرالثقافت قومیتوں کے مرکز بھارت میں مذہبی مقامات پر لوگوں پر بڑی تعداد میں حملے کیے گئے۔ بلنکن کا کہنا تھا کہ مذہبی آزادی بنیادی حق ہے جو امریکا کی عالمی پالیسیوں کی اہم ترجیحات میں شامل ہے۔ اپریل میں بھی واشنگٹن میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی موجودگی میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا بھارت میں انسانی حقوق کے تشویشناک واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
Advertisement
رپورٹ میں بھارت میں تبدیلیء مذہب پر پابندی کے قوانین کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور مبینہ توہین آمیز سوشل میڈیا پوسٹ پر مسلمانوں اور مسیحیوں کے ساتھ برتی گئی جانبداری کی مثالیں بھی دی گئی ہیں۔
بھارت نے فی الحال اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم وہ ماضی میں مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکی رپورٹوں کو اپنی روایتی ڈھٹائی سے مسترد کرتا رہا ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ملک کو اُس کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی سفیر رشاد حسین کا کہنا تھا کہ بھارتی حکمراں جماعت کے رہنما اقلیتی عوام اور مذہبی مقامات پر بڑھتے ہوئے حملوں کو نہ صرف نظرانداز کرتے ہیں بلکہ ایسے حملوں کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
امریکی مذہبی آزادی کمیشن یہ سالانہ رپورٹ تیار کرتا ہے جبکہ کمیشن ایک علیحدہ رپورٹ بھی تیار کرتا ہے۔ اپریل میں جاری کردہ رپورٹ میں بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی جہاں مذہبی آزادی کی صورتحال تشویشناک ہے تاہم امریکی حکومت نے مسلسل تیسری بار اس سفارش کو تسلیم نہیں کیا۔