امریکا اور افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے درمیان دوحہ میں 2 روز تک جاری رہنے والے مذاکرات اپنے اختتام کو پہنچ گئے ہیں۔ جس کے بعد طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ بات چیت کا محور افغانستان کے منجمد اثاثے تھے۔
نجی اخبارکی ایک رپورٹ کے مطابق ملاقات کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے طالبان کا کہنا ہے کہ یہ تین ماہ کے عرصے میں دونوں فریقین کے درمیان ہونے والی پہلی براہِ راست بات چیت تھی اور دونوں نے مزید بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
امریکا نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے
رواں ہفتے کے اوائل میں ایک امریکی عہدیدار نے خبردار کیا تھا کہ دوحہ مذاکرات کو کابل کے موجودہ حکمرانوں کو سفارتی طور پر تسلیم کرنا نہ سمجھا جائے۔
امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ اور طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ملاقات میں اپنے اپنے وفود کی سربراہی کی۔
Advertisement
امیر متقی کے ترجمان عبدالقاہر بلخی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ امریکی محکمہ خزانہ کے بھی ایک رکن نے ملاقات میں شرکت کی اور افغانستان کے منجمد اثاثوں پر امریکی محکمہ انصاف اور دیگر قانونی ماہرین سے بات ہوئی۔
افغانستان کے وفد میں محکمہ خزانہ اور مرکزی بینک کے عہدیداران شامل تھے جن کی بات چیت کا محور افغانستان کے منجمد اثاثے تھے۔
قبل ازیں، رواں ہفتے کے اوائل میں امریکی میڈیا نے اطلاع دی تھی کہ امریکا اور طالبان حکام ایک میکانزم پر کام کررہے ہیں جس کے تحت افغان مرکزی بینک کو منجمد فنڈز تک رسائی مل سکے۔
یاد رہے، اگست 2021 میں طالبان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد امریکی محکمہ خزانہ نے افغانستان کے تقریباً 7 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے تھے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ طالبان یورپی بینکوں میں رکے ہوئے 2 ارب ڈالر کے حصول کے لیے امریکی حمایت کی کوشش کررہے ہیں۔ فروری میں امریکی صدر جوبائیڈن نے افغان عوام کی فلاح کے لیے 7 ارب ڈالر میں سے نصف فنڈز غیر منجمد کیے تھے جبکہ بقیہ رقم امریکی عدالتوں میں طالبان کے خلاف جاری دہشت گردی سے متعلق مقدموں کے لیے روک لی گئی تھی۔ افغان شہریوں کی اکثریت بشمول طالبان اور ان کے مخالفین چاہتے ہیں کہ امریکا پورے 7 ارب ڈالر جاری کرے۔