انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی جانب سے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کے سب سے زیادہ حصص خریدنے کے بعد اس پلیٹ فارم پر نفرت انگیزی بڑھنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
الیکٹرک کاریں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلون مسک فری اسپیچ ابسلوٹسٹ ہونے کے دعوے دار ہیں اور وہ ماضی میں ٹوئٹر کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے ہیں۔
پیر کو ٹوئٹر سے معاہدہ ہو جانے کے بعد آزادیء اظہار رائے کو جمہوریت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دینے والے ایلون مسک نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ ٹوئٹر کو آزادیٔ اظہار کا ایک حقیقی فورم ہونا چاہیے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انتھونی رومیو نے کہا ہے کہ اگرچہ ایلون مسک اے سی ایل یو کے کارڈ ہولڈر رکن اور اُن کے نمایاں حمایتی ہیں تاہم کسی ایک شخص کے ہاتھ میں بہت زیادہ طاقت آ جانا خطرناک امر ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ڈیجیٹل ریسرچر اور انسانی حقوق کی وکیل ڈیبورا براؤن نے کہا ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ اس کمپنی کا مالک کون ہے، اس پر انسانی حقوق سے متعلق ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اس پلیٹ فارم کو دنیا بھر کے ان تمام افراد کی رائے کا احترام کرنا چاہیے جو انسانی حقوق پر بات کرنے کے لیے ٹوئٹر پر انحصار کرتے ہیں۔
دوسری جانب ٹوئٹر کی نئی انتظامیہ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کے تحفظات کے حوالے سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔