یوکرین کے دارالحکومت کیف کے میئر کلٹسکو نے خبردار کیا ہے کہ اگر بجلی کا بحران برقرار رہا تو شہر کو خالی کرنا پڑے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتوں میں لاکھوں یوکرائنی وقفے وقفے سے بجلی اور پانی کے بغیر رہ گئے ہیں، کیونکہ روسی فضائی حملوں نے یوکرین کی توانائی کے اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے۔
دارالحکومت کیف کے میئر کلٹسکو کا کہنا ہے کہ شہر میں بجلی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور اوورلوڈ سے بچنے اور مرمت کی اجازت دینے کے لیے رولنگ پاور کٹ کی بھی سخت ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ پاور پلانٹس اور لائنوں پر روسی حملوں سے یوکرین کے توانائی کے نظام کا تقریباً 40 فیصد نقصان یا تباہ ہو چکا ہے۔
Advertisement
کیف کے ایک اور اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ مکمل بلیک آؤٹ کی صورت میں پانی کی فراہمی اور سیوریج بھی کام کرنا بند کر دے گی۔
اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ جنیوا کنونشنز کے تحت جنگ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسپتال اور عام شہریوں کے استعمال میں آنے والی اشیاء کے خلاف حملے کرنے کی ممانعت ہے۔
یوکرائنی ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے کیف کے میئر وٹالی کلیٹسکو نے روس کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کو دہشت گردی اور نسل کشی قرار دیا۔
سابق ہیوی ویٹ باکسر نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو ہم یوکرینیوں کی ضرورت نہیں ہے، انہیں علاقے کی ضرورت ہے، انہیں ہمارے بغیر یوکرین کی ضرورت ہے۔
Advertisement
وٹالی کلٹسکو نے مزید کہا کہ اسی لیے جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ دراصل نسل کشی ہے اور روس کا کام ہمیں مرنا، منجمد کرنا، یا ہمیں اپنی زمین سے بھگانا ہے تاکہ وہ ہماری زمین حاصل کر سکے۔”
واضح رہے کہ کیف میں سردیوں میں اوسط درجہ حرارت انجماد سے نیچے ہوتا ہے اور رات کے وقت اس سے بھی زیادہ گر جاتا ہے۔
مئیر کلِٹسکو نے کہا کہ حکام بجلی کی فراہمی کو جاری رکھنے اور سیوریج کے نظام کو چلانے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔
وٹالی کلٹسکو نے مزید کہا کہ کیف کے 30 لاکھ باشندوں کو مضافاتی علاقوں میں رہنے والے دوستوں یا رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کا انتظام کرنا چاہیے جن کے پاس ابھی بھی پانی اور بجلی موجود ہے۔
Advertisement
مئیر کا کہنا تھا کہ اگر کیف کو بجلی کی فراہمی ختم ہونے کی صورت میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور دارالحکومت کو خالی کرنا پڑے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکام ایندھن، خوراک اور پانی کا ذخیرہ کر رہے ہیں اور رہائشیوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
شہر بھر میں کم از کم 1,000 ہیٹنگ شیلٹرز بنائے جا رہے ہیں جہاں لوگ ہنگامی صورت حال میں گرمی حاصل کر سکیں گے۔
Advertisement